Sunday, December 27, 2020

خالق کی منصوبہ بندی تقدیر اور انسان کی منصوبہ بندی تدبیر



   

کشمکش تھی یا جونک۔۔۔۔۔ جو سوچ سے بری طرح چمٹی ہوئی تھی۔ روز فیصلہ بدلتا۔ آج چلے جانے کا۔۔۔تو کل رکے رہنے کا۔۔۔۔دن گزرتے گئے اور آخری روانگی کا فیصلہ کروانے گئے تو کہا گیا پہلے فیصلے میں دیر کرنے کا بھگتان بھگتو۔ پھر کیا۔۔۔۔ جرمانہ بھرا اور مقیم کے صفحے پر خروج نہائی کا تمغہ سجا لیا۔
خوش تھے فیملی فیس کے پیسے بچیں گے۔ دوسرے مصرف میں کام آئیں گے۔۔۔۔۔ لیکن تقدیر نے اس فیصلے پر اپنی مہر نہیں لگائی تھی۔۔۔۔ اسکا فیصلہ قیام کا تھا۔۔۔ ادھر جانے کی خوشی۔۔۔۔ سامان اور تحائف کی خریداری۔۔۔۔ لیکن کل اور اسکے فیصلے بھلا کس نے دیکھے! کل آیا تو تقدیر کا فیصلہ ساتھ لایا۔۔۔۔ جانے کا راستہ بند ہوگیا۔۔۔۔ فلائٹ جو کینسل ہوگئیں کچھ دنوں کے لیے۔۔۔۔ اقامے کی تجدید منہ پھاڑے سر پر کھڑی۔۔۔۔ انتظار بس میں نہیں۔۔۔۔ فوری تجدید کرائے بنا کوئی اور چارہ نہیں۔۔۔۔ جس لیوی کی رقم کو بچانے کے لیے یہ منصوبہ بنا تھا۔۔۔۔ اب اسی رقم سے فیملی فیس جمع کرکے اقامے کی تجدید ہورہی تھی۔۔۔ اپنا منصوبہ ادھورا رہا۔۔۔ تقدیر کا لکھا ہوکر رہا۔۔۔۔ پیسے بچانے کے چکر میں خاصا نقصان اٹھا کر اب خوش ہیں کہ چلو بچے ساتھ ہیں۔۔۔۔ حالانکہ بچے پہلے بھی ساتھ تھے۔۔۔۔ فیملی بھیجنے پر مجبور کرنے والی حالت بھی نہیں تھی۔۔۔۔ لیکن اپنی گڑت کی عادت سے مجبور تھے۔۔۔ جب رب کائنات کے حساب سے اپنا حساب ٹکرایا اور رب کا حساب غالب آیا۔۔۔۔ تب ایک مرتبہ پھر سمجھ میں آیا کہ اسکے ارادے کے آگے سر تسلیم کیے بنا چارہ نہیں۔۔۔۔ اسکے فیصلے سے انحراف کا منصوبہ سازوں کو بھی یارا نہیں۔

ایک مرتبہ پہلے بھی اپنی گڑت لگائی تھی۔۔۔ تب بھی تقدیر کے ہاتھوں منہ کی کھائی تھی۔۔۔۔ آمدنی کا حساب لگاکر سمجھ بیٹھے تھے اب ہے وقت بچوں کے لانے کا۔۔۔۔ اعلی سطح سے پڑھانے لکھانے کا۔۔۔۔ بچے لیکر واپس آئے تو سب کچھ بدلا ہوا دیکھا۔۔۔۔ اپنے منصوبے کو اِدھر اُدھر بکھرا ہوا دیکھا۔ اب مشکل وقت سامنے تھا۔۔۔۔ اسی میں فیملی کو رکھنا تھا۔۔۔۔ رب کے فیصلے پر راضی رہنا تھا۔۔۔۔ وقت تھا گزر گیا۔۔۔۔ اب جب پھر سے راحت کی گھڑیاں آنے لگیں تو پیسے بچانے کی گڑت پھر سر کھجانے لگی۔۔۔۔ ایک مرتبہ پھر سے ہم نے اپنی گڑت کو رب کائنات کے حساب سے ٹکراتے دیکھا۔۔۔۔ اپنے منصوبے کو اسکے ارادے کے سامنے سرنگوں دیکھا۔۔۔۔ تب سلف کا یہ قول یاد آیا: "عرفت اللہ بفسخ العزائم وحل العقود ونقض الہمم/ ہم نے اللہ کو پہچانا ہی اپنے ارادوں اور عزائم کے ٹوٹنے سے"۔
 
نتیجہ: خالق کی منصوبہ بندی سے ٹکراتی بے محل منصوبہ بندی ہمیشہ بکھر جایا کرتی ہے۔